Add To collaction

منزل اور راستے

سردیوں کے سنسان راتیں تھی۔ لوگ جلدی اپنے گھروں میں کو جا پہنچے تھے۔ ہر طرف گہرا اندھیرا تھا۔ چاند کی بدولت کچھ روشنی اس اندھیرے میں خلل پیدا کر رہی تھی۔ میں اپنے دادا جان جے کمرے میں ڈیرا ڈالے بیٹھا تھا۔ ٹھنڈ کے باعث میں اور داداجان کمبل میں لیٹے ہوۓ تھے اور رات بھی بہت ہوچکی تھی۔ سردیوں کی چھٹیاں تھی سکول میں اس لیے بےفکری سے انکے پاس آ کے لیٹ گیا تھا اور ان سے بہت ساری کہانیاں سن چکا تھا۔ پر نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ مجھے خواہش تھی کہ دادا جان مجھے مزید کوئی کہانی سناۓ ۔ وہ مجھے اپنی زندگی جی قیمتی باتیں بتانے لگے تھے۔ وہ بتا رہے تھے 

داداجان : میں چودھا سال کا تھا جب میں اور میرے سارے اہل و عیال ہجرت کر کے پاکستان آگئی تھی۔ حالات بہت تنگ ہو گئی تھے۔ پہلے نہ روزی روٹی کی فکر ہوئی تھی نہ کوئی محنت مزدوری کا سوچا۔ گھر کے معاشی حالات کچھ خاص اچھے نہ تھے۔ والد کی عمر کا تقاضا یہ تھا کہ وہ زیادہ کام نہ کریں۔ مجھے ان کو یہ محنت مزدوری کرتا دیکھ کہ بڑی تکلیف ہوتی۔ پھر میں نے پیکجز کی کمپنی میں کام شروع کیا۔ پانچ جماعتیں میں نے پڑھ رکھی تھی آگے پھر میں نے ایک آدھا ڈپلومہ بھی کیا تاکہ اچھی پوسٹ مل سکے۔پھر بڑا عرصہ وہی کام کیا۔ میری شادی کے فوراً بعد ابو کا انتقال ہو گیا۔ پھر اچھی آمدنی کے لیے میں نے چھوٹا سا کاروبار بھی شروع کیا پر وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ پھر ایک اور کاروبار کا آغاز کیا تو اللہ نے بہت برکتیں ڈالی۔ جو جو وقت گزرتا گیا میرے لوہے کے کاروبار میں برکت بڑھتی گئی۔ تیس پینتیس سال میں نے یہ کاروبار خود سنبھالا۔ اب جا کہ ساری زمہ داریاں بیٹوں کے کندھے پہ ڈالی ہے۔ 
میں دلچسپی سے داداجان کی باتیں سنتا رہا۔
زندگی کا خوبصورت حصہ تھا وہ وقت بھی۔ مشکلات تھی پر بہت جزبہ اللہ نے دیا تھا۔ بہت کام کیا زندگی۔ اب تو عمر ہو گئی چلا پھرا نہیں جاتا ورنہ میں تو آج بھی کام کرتا رہو۔ ساری زندگی کام کرنے والا انسان یوں سارا دن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا۔ وقت نہیں کٹتا۔ 
داداجان اپنی کمزور سی آواز میں بول رہے تھے۔
ساری زندگی انسان کہتا اب آئے گا سکون ۔اب آۓ گا ۔ پر کبھی کسی چیز کی بھاگ دوڑ رہتی زندگی میں تو کبھی۔ میری تو اپنی منزل تک پہنچ گیا ہو۔ اب زندگی میں کیا بچا ہے۔ حسین تو وہی دن ہوتے ہیں جب انسان کے اندر دنیا فتح کرنے کا جزبہ اور جستجو ہوتی ہے۔ ہمیں زندہ رکھتی ہے یہ خواہشات۔ وہی راستے بھی حسین ہوتے ہیں جب انسان اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے۔ دن رات ایک کرتا ہے۔ جب انسان منزل تک پہنچتا ہے کہانی the end ہوچکی ہوتی۔

   16
12 Comments

Khan

02-Jul-2022 07:03 PM

Nyc

Reply

Chudhary

01-Jul-2022 06:42 PM

Nice

Reply

Aniya Rahman

01-Jul-2022 06:05 PM

Nice

Reply